لاہور نامور مضمون نگار طاہر سرور میر اپنے ایک بڑے آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ اور ۔۔۔صوفی تبسم کے پوتے ڈاکٹر جاوید صوفی بتاتے ہیں ’سنہ 1978 میں اور میرا دوست نیلام گھر میں ہی مہمان بنے۔ اور ہم دونوں دوست طارق عزیز کے روبرو تھے اور گاڑی کے لیے سوالات کے جواب بھی دے رہے تھے۔‘
’ہمیں ٹارگٹ دیا گیا تھا اور ہم نے 22 سوالات کا جواب دے کر گاڑی بھی جیتنا تھی۔ اور میں اور میرے دوست نے بیس سوالات کے جواب دیے، ہم سے دوغلطیاں ہوئیں جس کے بعد ہم گاڑی کی بجائے ٹیلی ویژن جیت کر گھر لوٹے تھے۔‘ڈاکٹر ٹونی نے بتایا ’نیلام گھر‘ کا فیڈ بیک اس قدر زبردست تھا ہم پورے علاقے میں ایک طویل عرصہ تک ہم لائق فائق بہت ہی مشہور ہو گئے تھے اور ۔طارق عزیز بتایاکرتے تھے اور وہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں یہ سعادت نصیب ہوئی اور انھوں نے ہی خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے متبرک کام میں ایک مزدور کی حیثیت سے کچھ دیر کام کیا اور ۔آغا قیصر کے مطابق طارق عزیز بتاتے تھے انھیں خانہ کعبہ میں ایک اینٹ لگانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔
اور ’انھیں یہ سعادت خانہ کعبہ کی تعمیر نو پر تعینات ایک پاکستانی کنٹریکٹر کے تعاون سے ہی نصیب ہوئی تھی جو اُن کا مداح ہی تھا۔‘’دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے اور ‘ یہ وہ جملہ ہے جو ربع صدی سے زائد وقت سے ہی ہماری سماعتوں میں گونج رہا ہے۔ اور طارق عزیز جب اپنے ٹی وی شو کے آغاز میں ہی بھاگتے ہوئے لوگوں کے سامنے آتے اور یہ جملہ ادا کرتے توسب ہاتھ دیوانہ وار تالیاں بجا کر اُن کا استقبال بھی کیا کرتے۔سینیئر اداکار اور طارق عزیز کے بہت ہی قریبی دوست محمد قوی خان بتاتے ہیں اور یہ ابتدائیہ طارق نے یوں اختراع کیا تھا کہ ایک دن اسے ایک ایسا پُرستار ملا جو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔