اللہ تعالٰی کا جتنا شُکر ادا کرے اُتنا ہی کم ہے، کیوکہ اُس ذات نے انسان کی تخلیق ایسے کی ہے کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسی ہی ایک مثال ہمیں انسان کے گلے کے بارے میں جانتے ہو ئے ملتی ہے۔
اللہ تعالٰی کا جتنا شُکر ادا کرے اُتنا ہی کم ہے، کیوکہ اُس ذات نے انسان کی تخلیق ایسے کی ہے کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسی ہی ایک مثال ہمیں انسان کے گلے کے بارے میں جانتے ہو ئے ملتی ہے۔
گلے پر موجود اُبھار، جسے آدم کا سیب کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل آواز کی نالی اور اعصاب کی حفاظت کرنے والی کرکری ہڈی پر مشتمل ہوتا ہے۔ جسے تھائیرائیڈ کارٹی لیج کہا جاتا ہے. البتہ آواز میں بھاری پن کی وجہ بھی اسی تھائیرائیڈ کارٹی لیج کی جسامت ہوتی ہے۔ بچپن میں لڑکوں اور لڑکیوں کی آواز میں کچھ خاص فرق نہیں ہوتا جبکہ اکثر لڑکوں کی آوازیں بالغ ہونے پر زیادہ بھاری ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ بلوغت تک پہنچنے پر ان کی تھائیرائیڈ کارٹی لیج بھی جسامت میں خاصی بڑی ہوجاتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جن مردوں میں یہ ساخت (آدم کا سیب) زیادہ بڑی اور باہر کو نکلی ہوتی ہے، ان کی آواز بھی اتنی ہی بھاری اور کھردری ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: ایک جسم فروش لڑکی کے سے ملاقات کے بارے میں
چونکہ عورتوں میں بالغ ہوجانے کے بعد بھی تھائیرائیڈ کارٹی لیج کی جسامت میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہوتا، اس لیے ان کی آواز بھی مردوں کے مقابلے میں زیادہ باریک ہوتی ہے۔ البتہ کچھ خواتین میں یہ ساخت زیادہ ابھر آتی ہے اور نتیجتاً اُن کی آواز بھی مردوں جیسی بھاری ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مردوں میں یہ حفاظتی کرکری ہڈی چھوٹی رہ جاتی ہے اور جب وہ بولتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی خاتون بات کررہی ہو۔