مکافات عمل ایک اٹل حقیقت ہے اور موجودہ اتحادی حکومت کو اس کا اچھی طرح احساس ہو گیا ہے ۔ جس عدالت کے فیصلے کے بعد شہباز شریف وزیراعظم پاکستا ن بنے تھے آج اپنے بیٹے سے وزارت چھن جانے کے بعد اسی عدالت پر سوال اُٹھانے لگے ۔ عدالتی فیصلے کے متعلق کہا کہ حصول انصاف کی توقعات کو دھچکا لگا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی ساکھ کا تقاضہ تھا کہ فل کورٹ تشکیل دیا جاتا جس سے انصاف واضح ہوتا نظر آتا ۔ شہباز شریف نے ٹوئٹر پر بھی اس کی دُہائی دی ہے اور اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے آئین نے ریاستی اختیار پارلیمنٹ ، انتظامیہ اور عدلیہ کو تفویض کئے ہیں اور سب اداروں کی حدود متعین کی ہوئی ہیں اس لئے کوئی ادارہ کسی اور کے اختیارات میں مداخلت کا حق نہیں رکھتا۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔ ایسا بیان وزیراعظم نے عدلیہ کے فیصلے کے بعد دیا ہے جب عدالت نے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی رولنگ کالعدم قرار دی اور پنجاب کی وزارت حمزہ شہباز سے لے کر پرویز الٰہی کو دی گئی۔