دس سال کی عمر سے بچوں کے بستر الگ کردو۔ اسلا م میں ایسا کرنے کو کیوں کہا گیا؟
دس سال کی عمر سے بچوں کے بستر الگ کردو۔ اسلا م میں ایسا کرنے کو کیوں کہا گیا؟
اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں زندگی گزارنے کے مکمل طریقے موجود ہیں ۔ اسوہ حسنہ ﷺ پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی زندگیوں کو آسان بنا سکتے ہیں ۔
آج کل نوجوان نسل میں جو بے راہ روی اور رشتوں کی بد احترامی دیکھنے میں آ رہی ہے اگر ان کو وقت پر ہر چیز سے متعلق شرعی تعلیم دی جاتی تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔
آج کل قیامت خیز خبریں سننے میں آ رہی ہے کوئی بہن اپنے بھائی سے محفوظ نہیں ہے نہ ہی باپ بیٹی کے رشتے کا اعتبار باقی رہا ہے ۔
بچے نہ تو اپنے استاد سے محفوظ ہیں نہ ہی اپنے عزیزو اقارب سے ۔ اس تمام تر چیزوں کا تعلق بچوں کی تربیت پر ہوتا ہے ۔
اگر والدین بچے کو بچپن سے ہی ان چیزوں کے متعلق معلومات دیں اور رشتوں کے تقدس کے متعلق بتائیں تو یقیناً ایسے حالات نہیں پیش آئیں گے
جیسے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر الگ کر دو۔ (رواہ ابو داؤد، مشکوۃ المصابیح : (قدیمی)کتاب الصلوۃٰ: ص 57)
حضور کریم ﷺ کا کہنا ہے کہ بچوں کے رات کے آرام کے بستر میں تفریق کر دو ان کی چادریں الگ کر دو، کوئی بہن اپنی بہن کے ساتھ نہ سوئے ، کوئی بھائی اپنے بھائی کے ساتھ نہ سوئے۔
یہ شریعت کا حکم ہے ان کے درمیان تکیہ رکھ دو ۔ ان کی چادریں الگ کر دو۔
شریعت کے اس حکم میں انسان کے لئے کس قدر بھلائی ہے اس کا اندازہ آج کے دور کے انسان کو خوب ہو رہا ہے ۔ نفسیاتی لحاظ اور معاشرتی لحاظ سے بھی بچے اس طرح بہت سی برائیوں اور مسائل سے دور رہتے ہیں۔
بچوں کے دماغ میں خود کی حفاظت سے متعلق سوچ ابھرتی ہے جس سے وہ مستقبل میں ایک مضبوط شخص بن کے ابھرتا ہے۔