کوئی بھی انسان کسی دوسرے کے نفع نقصان کا ذمہ دار نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے ۔
کوئی بھی انسان کسی دوسرے کے نفع نقصان کا ذمہ دار نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے ۔
دنیا لاکھوں لوگ ایسے ہیں کہ جو ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں کوئی کسی کی کامیابی سے جلتا ہے تو کوئی کسی کے پیسے سے ۔
اس حوالے سے ایک روایت موجو دہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت آدمؑ کے درمیان بحث ہوئی جس پر حضرت موسیٰؑ نے کہا کہ آپ آدمؑ ہیں جنہوں نے اپنی نسل کو جنت سے نکالا۔
تو آدم ؑ کہیں گے کہ آپ موسیٰؑ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے پیغام اور کلام کے لئے منتخب کیا اور پھر بھی آپ مجھے ایک ایسی بات کے لئے ملامت کر تے ہیں
جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میری قسمت میں لکھ دی تھی۔ چنانچہ آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آئے۔ (بخاری 7515)
ایک اور روایت کے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا
کہ انسان کی پیدائش کی تیاری اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک کی جاتی ہے جو کہ نطفہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ پھر وہ اتنے ہی دن وہ ایک بستہ خون کی صورت میں اختیار کئے رہتا ہے ۔
پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے ۔ جس کو اللہ تعالیٰ چار باتوں کو لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل ، اس کا رزق ، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک ، یہ بھی لکھ لے۔ اب اس نطفہ میں رو ح ڈالی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک انسان ساری زندگی نیک اعمال کرتا ہے
جب اس کے اور جنت کے درمیان ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر درمیان میں آ جاتی ہے تو وہ دوزخ والوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے ۔
ایسے ہی ایک شخص ساری زندگی بے راہ روی پر چلتا رہتا ہے تو پھر جب اس میں اور دوزخ میں ایک ہاتھ کا فاصلہ رہتا ہے تو وہ جنت والوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے ( بخاری 3208)