آخر عمران خان جیت ہی گیا۔۔

    آخر عمران خان جیت ہی گیا۔۔

     

     

    گزشتہ روز پاکستان کی سب سے بڑی اسمبلی سینیٹ کا الیکشن منعقد ہوا اور آخر کار وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ اس بات کا تذکرہ کرنا تو وقت کا ضائع ہو گا کہ کون جیتا، کس طرح جیتا اور کیوں جیتا؟ یہ سب تو آپ جانتے ہی ہونگے۔

     

     

    یہ بات کرنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں قانون دان اور رہنماء نہیں بلکہ سوداگر بیٹھے ہیں، جو نا صرف اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں بلکہ اپنے ملک کا بھی سودا کرتے ہیں۔ اس کی مثال حالیہ سینیٹ کے الیکشن میں ملتی ہے۔

     

     

    عمران خان کو جس بات کی فکر تھی، وہی ہوا۔ اب سمجھ میں آ رہا ہوگا کہ کیوں عمران خان چاہتا تھا کہ اوپن بیلٹ سینیٹ کا الیکشن ہو تاکہ سینیٹ کا ووٹ خریدا نا جاسکے لیکن اس کے برعکس تمام وہ قوتیں سرگرم ہوئی، جنہوں نے ضمیر اور ووٹ کا سودا کرنا تھا۔ ووٹ کو عزت دو کو نعرے کا پس منظر یہ ہے کہ وہ ووٹ کو خریدنے کے حامی بنے بیٹھے ہیں۔

     

     

    قوم جائے تو جائے کہاں؟ ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا؟

     

     

    اگر اوپن بیلٹ الیکشن کروا دیا جاتا ہے تو اس کا فائدہ کیا عمران خان کی ذات کو ہوتا یا پھر کسی ایک پارٹی کو ہوتا؟ نہیں بلکہ اس اوپن بیلٹ کا فائدہ پوری قوم کو ہوتا۔ کیونکہ عمران خان تو آج ہے، کل پتہ نہیں کون ہوگا لیکن یہ قوم اور یہ ملک تو رہے گا۔

     

     

    مگر اس اوپن بیلٹ کی منظوری کا یہ فائدہ ضرور ہونا تھا کہ آئندہ کوئی ضمیر کا سودہ کرنے والا شخص آپ کے سہارے سے پاکستان کے اعوانوں میں نہیں پہنچانا تھا اور بلا شبہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی فتح ہونی تھی۔

     

     

    یہاں پر یہ بات بھی انتہائی غور طلب ہے کہ یہ بھی اللہ کی نشانی ہے کہ اس ذات نے کسی بھی طریقے سے الیکشن کے ایک دن پہلے ہمارے سامنے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی وہ ویڈیو لا دی مگر ہم بطور قوم پھر بھی اتنے گونگے، بہرے اور اندھے ہوئے کہ ہمیں ابھی بھی سمجھ نہیں آیا کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ ہم اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے خواب خرگوش میں سوئے ہوئے ہیںَ۔

     

     

    ایسے حالات میں ہمیں بطور پاکستانی اُٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، جس میں کسی بھی جماعت، رنگ اور مذہب کی تمیز کئے بغیر پاکستان کے لئے آواز بلند کرنا ہے، ورنہ ایک وقت آئے گا کہ ہم پر وہ مثال مناسب رہے گی کہ “دھوبی کا کتا نا گھر کا، نا گھاٹ کا”۔

     

     

    اب جاگنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ہمیں جاگنے کی ضرورت ہے، ہمیں اُٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے ملک کے لئے بھی کچھ کر سکیں۔ بصورت دیگر ہمارے بچے پھر انہی حالات میں چلے جائینگے، جہاں سے ہمیں آباو اجداد نے نکالا تھا۔

     

     

    تحریر: جنید آکاش