آج پوری دُنیا سمیت پاکستان میں بھی عورت مارچ کے نام سے دن منایا جارہا ہے۔
آج پوری دُنیا سمیت پاکستان میں بھی عورت مارچ کے نام سے دن منایا جارہا ہے۔
آج پوری دُنیا سمیت پاکستان میں بھی عورت مارچ کے نام سے دن منایا جارہا ہے، جو کہ بظاہر ایک خوش آئین بات ہے کہ عوتوں کے لئے ایک مخصوص دن منایا جا رہا ہے، کیونکہ ہم سب کے گھر میں مائیں، بیٹیاں اور بہنیں ہیں۔
مگر ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ یہ دن ہمارے ہاں کس طرح منایا جا رہا ہے؟ جس میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ عورت مارچ کے نام سے کچھ بے راہ روی کا شکار خواتین اور لڑکیاں دوسری گھریلوں اور اچھی لڑکیوں کو بد نیم کرنے میں سرگرم نظر آتی ہیں۔
جیسا کہ عورتوں کا مختلف قسم کے ڈائیلاگ لکھ کر پلے کارڈز ہاتھوں میں تھما کر، سڑکوں، گلیوں اور چوکوں میں نکلنا؟ جو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں ایسا کونسا کام کیا جا رہا ہے، جس نے عورتوں کو اس حد نقصان پہنچایا کہ عورتیں اس طرح گلی، محلوں میں نکلنے کے لئے مجبور ہوگئی ہیں۔
اگر ہمارے معاشرے کا ایک جائزہ لے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے، اور یہ اسلام ہی ہے، جس نے عورتوں کو حقوق دلوائے۔ تو پھر بجائے عورتیں شکریہ ادا کرنے کے احتجاج کیوں کر رہی ہیں؟
تو پتہ یہ چلتا ہے کہ درحقیقت اسلام نے عورتوں کو حقوق دلوانے کے ساتھ کچھ پابندیاں بھی بتائی جو کہ حقوق کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہیں، ورنہ انہیں پابندیوں کو ختم کر کے پہلے عورت کا غلط استعمال بھی ہوتا رہا ہیں اور انہیں حقوق بھی نہیں ملتے تھے۔
جبکہ اگر پابندیاں پر نظر ڈالے تو پتہ چلتا ہے کہ عورت کا پردہ کرنا، غیر محرم سے دوستی اور دوسرے کچھ اس طرح کی پابندیاں ہیں، جو دراصل عورت کے لئے ہی بہتر ہیں۔
مگر بات یہ ہے کہ کچھ غلط قسم کی عورتوں کو پردہ کرنا بُرا لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے جسم کی نما ئیش کرنا چاہتی ہے، اسی طرح انہیں محرم سے پردہ کرنے میں مسئلہ ہے کیونکہ ان کا ذہن یہ ہے کہ جو بھی ملے اس کے ساتھ انجوائے کیا جائے اور پھر اپنی اپنی رہ لی جائے۔ اور اس طرح عورت پھر ایک ذاتی تسکین کا آلہ کار بن جاتی ہے۔
جبکہ اس کے برعکس اسلام عورت کو حقوق دینے کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی مہیا کرتا ہے، جو کہ کچھ غلط قسم کی عورتوں کا بُرا لگتا ہیں۔ اس لئے وہ چاہتی ہے کہ باقی عورتوں کو بھی عورت مارچ کے نام سے اس غلط قسم کے کام ملوث کیا جائے۔
اگر مشاہدہ کرے تو پتہ چلتا ہے کہ 70 فیصد سے زیادہ خواتین اس مارچ اور اس ڈے کے حق میں نہیں ہیں، کیونکہ وہ اپنے گھروں میں سکون سے اور خوش ہے، جبکہ چند خواتین جو اس غلط کام میں ملوث ہیں، وہ کچھ یونیورسٹی اور کالجز کی نوجوان لڑکیاں کو بہلا پھیسلا کر اپنے کام میں وقتی طور پر پیھنسا لیتی ہے۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس کام میں ملوث خواتین کچھ گھریلوں مسائل کو غلط رنگ دے کر اس مارچ کے ایجنڈے میں ڈال لیتی ہے، جو کہ ایک بے بنیاد اور غلط کام ہے۔ کیونکہ گھریلوں مسائل کا حل بھی گھروں میں ہی ہوتا ہے تاکہ گلی محلوں اور سڑکوں میں آکر ان کا حل کیا جاتا ہے۔