سٹیفن ہاکن کی بلیک ہول کے متعلق ریسرچ کو مانا گیا ہے عموما یہ خیال کیا جاتا ہے بلیک ہول چونکہ بہت زیادہ کشش ثقل رکھتے ہیں اس لئے ان میں داخل ہونا ممکن نہیں، بعض سائنسدانوں نے اس کا نام موت کے گڑھے رکھ دیا ہے لیکن سٹیفن ہاکن نے اس کی تردید کی ان کے مطابق جس چیز میں ہم جھانک ہی نہیں سکتے اس کو موت کا گڑھا کہنا غلط ہے۔ ہوسکتا ہے وہ دوسری دنیا میں داخل ہونے والا دروازہ ہو۔
سائنسدانوں کے مطابق جب کوئی ستارہ ڈوبنے والا یا ختم ہونے والا ہوتا ہے تو یا تو وہ تباہ ہو جاتا ہے یا پھر بلیک ہول بن جاتا ہے۔ بلیک ہول تب بنتا ہے جب کسی بھی مواد کو ایک چھوٹے حصے میں جکڑا جائے تو اس کی کشش ثقل بڑھ جاتی ہے جس میں روشنی بھی گم ہو جاتی ہے کیونکہ انسانی آنکھ اشیاء کو تب دیکھ پاتی ہے جب روشنی اُس سے ٹکڑا کر واپس آتی ہے لیکن بلیک ہول میں روشنی گم ہو جاتی ہے اس لیے اس کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
بلیک ہولز کو سائنسدان واقعہ معراج سے جوڑتے ہیں اُن کے مطابق قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہی کائنات تسخیر کر لی تھی جہاں سائنس آج پہنچ رہی ہے بلیک ہول کی ساخت کو بیری کے درخت سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کا ایک سرا باریک اور دوسرا چھوڑا ہے۔ اس میں روشنی یا تو نیچے کی طرف نکل جاتی ہے یا اوپری سطح پر رہتی ہے۔ آر پار نہیں جا سکتی ، سٹیفین ہاکن کے مطابق بلیک ہول دوسری دنیا کا دروازہ ہے جہاں سے واپسی کا راستہ بھی لازماً ہوگا۔