واقع معراج کیسے اور کہاں ہوا، تفصیلی معلومات، جو آپ پہلے نہیں جانتے

    واقعہ معراج اللہ کی قدرتوں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

     

    اس واقعہ میں اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنی قدرت کاملہ کا مظاہرہ کروایا۔ واقعہ معراج علان نبوت ماہِ رجب کی ستائیسویں رات تھی جب اللہ نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا : “اے فرشتوں آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو، آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو اور آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کردو میری فرمانبرادی کا کلہا اپنے سروں پر باندھ لو۔اور فرمایا : ” اے جبرائیل! یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کر دے ازرائیل سے کہی دو کہ وہ کچھ دیر کے لیے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھا لے۔” حکم ربی ہوا کہ اے جبرائیل اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ، حکم الہی سن کر جبرائیل امین سواری لینے کے لیے جنت میں جاتے ہیں اور آپ نے جنت میں جا کر ایسی سواری کا انتخاب کیا جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی نصیب نہ ہوئی ہوگی۔

    Advertisement

     

     

    میسر ہونا تو دور کی بات ہے دیکھیں تک نہ ہوگی۔ اور دیکھنا دور کی بات سوچی تک نہ ہوگی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا تھا۔ حضرت جبرائیل رات کے وقت براق لیے آسمان کی بلندیوں سے حضرت ام ہانی رضی اللی عنہ کے ہاں گھر تشریف لاتے ہیں۔ جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محو خواب ہیں۔ حضرت جبرائیل سوچتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ وسلم کو اٹھایا جائے یا نہ اٹھایا جائے اس وقت حکم ربی ہوتا ہے کہ جبریل تو میرے پیارے پیغمبر کے قدم چوم لے تاکہ تیری لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے۔

    Advertisement

     

     

    اسی وقت حضرت جبریل نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے۔ ان کے لب مبارک کی سے ٹھنڈک سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو گئے اور دریافت کیا: ” اے جبرائیل کیسے آنا ہوا؟”

    Advertisement

     

    عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ خدا کی طرف سے بلاوا لے کر حاضر ہوا ہوں۔ یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے سفر کی تیاری شروع کی، حضرت جبریل نے آپ کا سینہ چاک کر کے آپ کے دل کو دھویا۔

     

    Advertisement

    پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک پر امامہ باندھا گیا۔ حضرت جبریل نے آپ صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی،زمرد کی نالین مبارک پاؤں میں زیبِ تن فرمائی۔

     

    چند لمحوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر تشریف فرما ہو گئے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رقاب تھام لی، حضرت میکائیل نے لگام پکڑ لی۔ حضرت اسرافیل نے زین کو سمبھالا۔

    Advertisement

     

     

    درود و سلام کی گونج میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر کا آغاز فرمایا اس واقعے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا ہے: ”
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ پھر راستے میں ایک سرخ ٹیلہ آتا ہے

    Advertisement

     

    پھر بیت المقدس بھی آگیا جہاں حور و غلماء خوش آمدید کہنے کے لیے اور تقریباً ایک لاکھ چابیس ہزار انبیاء آپ کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ پھر آپ بابِ محمد کے مقام پر تشریف فرما ہوئے۔

     

    Advertisement

    آپ مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہوئے جدھر صحن حرم سے فلق تک نور ہی نور چھایا ہوا تھا۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت فرمانے تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔

     

    سرور ِکونین آسمان کی طرف روانے ہوئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ پھر مجھے اوپر لے جایا گیا، براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ جاتی وہاں براق کا پہلا قدم ہوتا اور پھر پہلا آسمان آ گیا۔حضرت جبریل نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    Advertisement

     

     

    پوچھا گیا کون ہے، جواب میں حضرت جبریل نے کہا میں جبرائیل ہوں، پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبریل نے کہا محمد، چنانچہ دروازہ کھولا گیا۔

    Advertisement

     

     

    آسمان اوّل پر حضرت آدم علیہ السلام نے آپ کو خوش آمدید کہا دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اور تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے اور چوتھے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام نے چھٹے آسمان پر حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔

    Advertisement