مشہور صحافی حبیب صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کو کاروبار کر نے کے اصل گن سمجھا دیے جائیں تاکہ وہ اگلی نسلوں تک یہ علم پہنچا سکیں جو ہم نے اس کوچہ و بازار میں دھکے کھا کر حاصل کیا ہے۔
مشہور صحافی حبیب صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کو کاروبار کر نے کے اصل گن سمجھا دیے جائیں تاکہ وہ اگلی نسلوں تک یہ علم پہنچا سکیں جو ہم نے اس کوچہ و بازار میں دھکے کھا کر حاصل کیا ہے۔
انہوں نے بیان کیا: پہلا گن: اگر آپکے والد یا بھائیوں بہنوں میں سے اعلیٰ سرکاری افسر ہے تو فوری طور پر کاروبار شروع کر دیں۔ کوئی بھی کاروبار شروع کر دیں بھلے ہی اس کا علم نہ ہو وہ چل پڑے گا۔ کیونکہ پاکستان کا یہ تجربہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری افور کا بچہ کاروبار شروع کر دے تو وہ چل پڑھتا ہے۔
دوسرا گن: زیادہ مقدار میں پیسہ ہونا چاہئے کہ جس جگہ آپ کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں وہاں کا اعلیٰ افسر اور چھوٹے سے چھوٹا اہل کار بھی خود کو آپکا حصے دار سمجھے۔اس طرح جلد ہی کاروبار میں تیزی سے جھنڈے گاڑھنے لگیں گے۔
تیسرا گن: جن کے والدین پہلے سے ہی کاروبار جما چکے ہیں اور نئی نسل اس کی بھاگ دوڑ سمبھال رہی ہے اس نسل کو چاہیے کہ کاروبار میں جو بھی نئے آنے والے لوگ ہوں ان کو اپنا دوست بھائی یا انکل بنا لیں۔تاکہ اس سے آپ کو بھی فائدہ پہنچے۔
چوتھا گن: کاروبار کی نوعیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ نے کوئی کارخانہ نہیں لگانا۔ کوئی کارخانہ لگانا ہے تو دھاگہ بنانے کی مل، گاڑیوں کی اسمبلینگ کا ہلانٹ،کھاد کا کارخانہ، شوگر مل وغیرہ لگائیں۔ کیونکہ ان کارخانوں کو حکومت ٹیکس معاف کرتی ہے۔ پاکستان میں ایسے کارخانے لگانے ہر آپ کو نقصان ہو ہی نہیں سکتا۔
پانچواں گن: زمینوں اور ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کا کام شروع کر دیں۔ ویسے بھی اب یہ ہمارا قومی کاروبار بن چکا ہے۔ بس اس میں احتیاط یہ کرنی ہے کہ کسی ایسی زمین پر قبضہ نہیں کرنا جس پر پہلے سے ہی کوئی سرکاری افسر نظریں جمائے بیٹھا ہو۔لیکن عام آدمی کی زمین ہی سمجھیں اور یہ کاروبار شروع کریں اگر باقی کے کاروبار مشکل لگتے ہیں تو۔