غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض ہیں۔یہ بیسوی صدی کے وہ مشہور شاعر ہیں جن کو زندگی میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت ملی، ایک ایسے شاعر جس نے محبت اور انقلاب کے ترانے ایک ساتھ گائے۔
یہ ایک ایسے شاعر تھے جو قید تو ہوئےلیکن اپنی سوچ پر کسی کو بھی تالے نہیں لگانے دیے۔ ان کی انقلابی نظم “ہم دیکھیں گے” ، پچھلے سال انڈیا میں کانپور یونیورسٹی کے کچھ طلبہ نے اس نظم کو پڑھا تو انڈیا میں ایک لمبی بحس چھڑھ گئی تھی اس نظم کے حوالے سے کہ یہ نظم ہندو مخالف ہے۔
فیض احمد فیض کا نام انڈیا اور پاکستان میں ایک جیسا ہی جانا جاتا ہے۔
فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان محمد خان ایک علم پسند شخص تھے، اور پیشے سے وہ وکیل تھے۔بچپن میں فیض احمد کے گھر کے پاس ایک حولی تھی جہاں مشاعرہ منعقد کیا جاتا تھا۔ فیض احمد فیض کو وہاں سے شاعری کا شوق پیدا ہوا اور دسویں جماعت میں اپنی پہلی شاعری قلم بند کی۔ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔بی اے گورنمٹ کالج لاہور سے پاس کیا، اور پھر وہیں سے 1932 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے پاس کیا۔
1941 میں فیض احمد فیض نے برطانوی شہری ایلس جارج سے شادی کی۔ 1942 میں فوج میں بطور کیپٹن ملازمت اختیار کی، 1943 میں میجر ہوئے اور پھر اگلے ہی سال 1944 میں لیفٹنٹ کرنل ہو گئے۔
سال 1947 میں پاکستان ٹائمز اخبار کے مدبر بھی بنے۔ 1947 میں ہی اشتراقیت پسند پارٹی آف پاکستان کی بنیاد بھی رکھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے لیاقت علی خان نے اس پارٹی پر پابندی لگا دی تھی۔
23 فروری 1991 کو چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل اکبر خان کے گھر پر ایک خفیہ ملاقات کا انعقاد ہوا۔ جس میں فیض احمد فیض اور ان کے ہمراہی شامل تھے۔ اور لیاقت علی خان کی حکومت کو گرانے کا ایک منصوبہ تجویز ہوا۔
یہ سازش بعد میں راولپنڈی سازش کے نام سے جانی گئی۔ 9 مارچ 1951 کو فیض احمد فیض کو راولپنڈی سازش میں معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیلوں میں گزارے، جہاں سے آپ کو 2 اپریل 1955 کو رہا کر دیا گیا۔