لاہور (اعتماد نیوز ڈیسک) نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو ’’محسنِ پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کیاجارہا ہے، حقیقت میں وہ ’’محسنِ ملت اسلامیہ ‘‘تھے، وہ پورے عالم اسلام کے محسن تھے، پاکستان جب سے ایٹمی قوت بنا اُس وقت یہ اعزاز کسی اسلامی ملک کو نصیب نہیں ہوا تھا۔
ایک اسلامی ملک (پاکستان) چاہے وہ کہنے کی حدتک ہی اسلامی ہے، کو یہ اعزاز جب حاصل ہوا عالم اسلام میں ایک نیا دم خم پیدا ہو گیا، اسلام خصوصاً پاکستان کے دشمن ایک خوف سے دوچار ہوگئے، … جو یہ کہتے تھے اسلامی سائنسدانوں نے سوائے باتیں کرنے کے آج تک کچھ نہیں کیا اُن کی سوچوں میں کیڑے پڑ گئے، ایٹمی تجربات کے بعد بھارت بڑا خوش تھا، اُس کا خیال تھاپاکستان نے شاید اِس پر کوئی ورکنگ نہیں کی ہوئی، یا پاکستان کچھ عالمی قوتوں کے دبائو میں آکر شاید فوری طورپر اس کا جواب نہ دے، سو پاکستان کو دبانے میں اب اُسے بڑی آسانی ہوگی،
…یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کمال تھا اُنہوں نے بھارت کی اِن ناپاک سوچوں کو خاک میں ملانے کاپورا اہتمام کررکھا تھا، کچھ لوگوں کا خیال تھا پاکستان چونکہ اِس وقت امریکہ کی غلامی کے تاثر سے لبالب بھرا ہوا ہے ہوسکتا ہے امریکہ کے دبائو پر بھارت کی ایٹمی قوت کے جواب میں وہ خاموشی اختیار کرے، نواز شریف کو مالی و سیاسی اعتبار سے لاکھ بُرا بھلا ہم کہہ لیں، مگر اُن سے مضبوطی سے جُڑی ہوئی اِس حقیقت سے ہم انکار نہیں کرسکتے امریکی دبائو کے باوجود قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے فوری طورپر ایٹمی تجربات کا اُنہوں نے عملی مظاہرہ کردکھایا، ظاہر ہے اس معاملے میں اُس وقت کی عسکری قیادت کی حمایت بھی اُنہیں حاصل ہوگی، مگر حتمی فیصلہ نواز شریف نے ہی کرنا تھا، جس شخص (نواز شریف) کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا وہ قوت فیصلہ کی اہلیت سے مکمل طورپر محروم ہے۔