لاہور ڈی ایچ اے پٹرول پمپ پر ایک آدمی آتا ہے اور ایک عورت کو جو اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوا رہی ہوتی ہے پینٹر کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ وہ خاتون انکار کر دیتی ہے لیکن تکلفانہ اس کا وزیٹنگ کارڈ لے لیتی ہے۔ وہ خاتون پھر اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے روانہ ہوتی ہے۔
تب ہی وہ دیکھتی ہے کہ وہ آدمی بھی اسی وقت وہاں سے روانہ ہوتا ہے۔
کچھ منٹ کے بعد اس خاتون کو چکر آنے لگتے ہیں اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ وہ گاڑی کی کھڑکی کھولتی ہے اور محسوس کرتی ہے کہ خوشبو اس کے ہاتھ سے آ رہی ہے۔ اسی ہاتھ سے جس سے اس نے وہ وزیٹنگ کارڈ پکڑا تھا۔ وہ پھر نوٹس کرتی ہے کہ اس آدمی کی گاڑی اس کے پیچھے ہے۔ اس خاتون کو محسوس ہوتا ہے کہ کچھ کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: آپ حضرت ابوبکر صدیق رضہ اللہ تعالی عنہ کو کیوں بُرا بھلا نہیں کہتے بزرگ نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا۔۔
وہ راستے میں آنے والے پہلے پٹرول پمپ پر رک جاتی ہے اور مسلسل ہارن بجانا شروع کر دیتی ہے مدد مانگنے کے لیے۔ وہ آدمی جب یہ دیکھتا ہے تو بھاگ جاتا ہے لیکن اس خاتون کو اگلے کئی منٹوں تک سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ کافی دیر بعد اس کا سانس بحال ہوتا ہے۔
بظاہر وزیٹنگ کارڈ پر ایک دوائی لگی تھی جو سانس لینے کے ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس دوائی کا نام *burundaga* ہے۔ اور یہ جرائم پیشہ افراد اپنے ٹارگٹ کو قابو میں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سیمپل کارڈ پر ٹرانسفر ہو کر پکڑنے والے کے ہاتھ سے اس کے سانس کے ساتھ جسم میں داخل ہو کر سانس لینا مشکل کردیتی ہے.