پروین شاکر کی پیدائش 24 نومبر 1952 کو کراچی میں ہوئی۔ آپ ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پروین شاکر ایک بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ ان کو بہت کم عمر میں ہی شہرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں ہی شعر و شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔
پروین شاکر کی پیدائش 24 نومبر 1952 کو کراچی میں ہوئی۔ آپ ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پروین شاکر ایک بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ ان کو بہت کم عمر میں ہی شہرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں ہی شعر و شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔
اور اس میں ان کو اپنے والد صاحب کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔ ان کا اصل وطن لہریاسرائے تھا۔ ان کے والد شاکر حسین خود بھی ایک شاعر تھے۔
انہوں نے میٹرک کا امتحان گرلز سکول کراچی سے اور بی اے سر سید کالج سے پاس کیا تھا۔ 1972 میں انہوں نے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر لسانیات میں بھی ایم اے پاس کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ہاورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ عبد اللہ گرلز کالج کراچی میں بطور اساتذہ ملازم ہو گئیں۔ کالج میں 9 سال تک پڑھانے کے بعد انہوں نے پاکستان سِول سروسز کا امتحان پاس کیا۔
ان کی عمر اس وقت صرف 25 سال تھی جب ان کا پہلا کلام خوشبو منظرِ عام پر آیا۔ جس نے ادبی حلقوں میں دھوم مچا دی تھی۔ انہیں اس مجموعے پر آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
پروین شاکر کی شادی 1976 میں ان کے خالہ کے بیٹے نصیر علی سے ہوئی جو ملٹری میں ڈاکٹر تھے۔ یہ شادی پروین شاکر کی پسند سے ہوئی تھی لیکن کامیاب نہ رہ سکی۔ اس شادی کا اختتام طلاق پر ہوا۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام مراد علی ہے۔
پروین شاکر نے اپنی شاعری مرد کے حوالے سے عورت کے احساسات کی بھر پور ترجمانی کی۔ ان کی شاعری حجر و وصال کے کشمکش پر مبنی ہے جس میں نہ حجر مکمل ہے نہ ہی وصل۔
پروین شاکر کی شخصیت میں بلا کی خود اعتمادی تھی اور یہ خود اعتمادی ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔ 18 سال کے دوران ان کے 4 مجموعے: خوشبو، صدِ برگ، خود کلامی اور انکار شایع ہوئے تھے۔
26دسمبر 1994 کو آفس جاتے وقت حادثے کی وجہ سے پروین شاکر کا انتقال ہو ا۔
ان کی وفات کے بعد مراد علی نے بتایا کہ حکومت نے اس وقت تک سرکاری گھر میرے پاس رہنے دیا جب تک میں نے گریجوایشن مکمل کی۔ اس وقت کی وزیراعظم بےنظیر بھٹو تھیں اور انہوں نے یہ کمال مہربانی کی اور مراد کے خرچے کی ساری ذمہ داری اپنے سر اٹھا ئی۔
بے نظیر نے مراد علی کے لئے مہانہ 60 ہزار وظیفہ مقرر کر دیا تھا جو مراد علی کے لئے بہت مددگار تھا۔