نبی کریم ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد جب اسلام عرب میں تیزی سے پھیلنے لگا تو عرب کے منافقین کو جو بظاہر مسلمان تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ تھے مگر در حقیقت وہ اسلام کے مخالف تھے۔ انہوں نے ایک سازش مسلمانوں کے خلاف 9 ہجری میں کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ نے آپ ﷺ کو منافقین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا اور ان کی اس سازش پر پانی پھر گیا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضورﷺ کو سن 9 ہجری میں اطلاع ملی کہ تبوک کے میدان میں رُوم کا بادشاہ مسلمانوں کے مقابلے میں اپنا لشکر جمع کر رہا ہے۔ آپ ﷺ نے پھر جہاد کا اعلان فرمایا اور مسلمان جہاد کے لئے مدینہ میں جمع ہونے لگے۔ ابھی آپﷺ مصروف تھے کہ منافقین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ کیوں نہ مسجدِ قباء کے مقبلے میں ایک مسجد تیار کی جائے اور اس کو بنانے کا بہانہ یہ کیا جائے کہ جو لوگ کسی بیماری کی وجہ سے مسجدِ نبویﷺ میں نہ جا سکیں وہ اس مسجد میں چلے جائیں۔ مگر اس مسجد کو بنانے کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ اس میں بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جائیں گی۔ اور جو کثیر تعداد میں اسلحہ وغیرہ دیا جا رہا تھا اس کو اس ہی مسجد میں جمع کیا جائے اور یہیں سے اپنے جالوں کا چال پورے عرب میں پھیلا دیا جائے۔ یہ ہی سوچ کر منافقین آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ انہوں نے بوڑھے اور کمزور لوگوں کے لئے قریب ہی ایک مسجد بنائی ہے اب ہماری خواہش ہے کہ آپﷺ چل کر اس میں نماز پڑھا لیں تاکہ اس مسجد کا رتبہ بڑھ جائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت بہت اہم جہاد کے لئے مدینہ سے باہر جا رہا ہوں۔
واپسی پر اس بارے میں دیکھا جائے گا، لیکن جب آپ ﷺ جنگ میں فتح کے بعد واپس آئے تو اللہ نے آپﷺ کو اس مسجد کا اصل مقصد وحی کے ذریعے سے بتا دیا۔ چنانچہ آپﷺ نےصحابہ کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ وہ اس موقع کی جگہ پر جائیں اور اس مسجد کو آگ لگا کر ختم کر دیں۔