پیر محمد عبد الوحید رضوی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بچی جس کی شادی قریب تھی اس کے والد اس کو سنیارے کے پاس لے گئے تاکہ وہ اپنی مرضی کا زیور پسند کرلے۔ اس کو ہا ں جا کر ایک بھاری بھرکم ڈیزائن پسند آیا، اس کی ماں نے مشورہ دیا کہ آپ اتنا بھاری ڈیزائن پسند مت کریں، اس میں کھوٹ زیادہ ہوتے ہیں۔اس نے کہا کہ مجھے کھوٹ کی پرواہ نہیں، مجھے یہ ہی پسند ہے۔
قریب 15 تولے کا اس کا زیور تیار کیا گیا۔ پھر بچی کی شادی ہوئی تو وہ خوشی خوشی اپنا زیور پہنتی ہے، شادی کے بعد ایک بار ایسا ہوا کہ اس کے شوہر پر کچھ مشکل معاملات آئے۔ اس کی بیوی نے کہا کہ تم ایسا کرو کہ میرا زیور بیچ دو اس کے بدلے بہت سے پیسے مل سکتے ہیں۔
اب اس کا شوہر زیور لے کر بیچنے کے لئے بازار گیا۔اس نے وہ زیور مختلف سنیاروں کو دکھایا، سب نے کہا کہ اس میں کافی کھوٹ ہے، ا سکے کو تو کم ہی پیسے بنتے ہیں۔اب ان کی سوچ تو زیادہ پیسوں کی تھی کہ پندرہ تولہ سونا کے زیادہ پیسے ہی ملیں گے۔ وہ گھر آکر اپنی بیوی کو بتاتا ہے، بیوی کہتی ہے کہ مجھے میری ماں نے کہا بھی تھا کہ اس طرح کے بھاری ڈیزائن میں کافی کھوٹ ہوتے ہیں، اگر میں تب ان کی سن لیتی اور ظاہری زیب و زینت کو نہ دیکھتی تو آج اس میں کھوٹ کم نکلتے اور اس کی قیمت بھی اچھی لگ جاتی۔