پیر محمد عبد الوحید رضوی نے حضرت مالک بن دینار کا ایک قصہ بیان کیا: کہ حضرت مالک کو بن دینار کیوں کہا جاتا ہے۔
آپ اپنے گھر سے نکلے تو جیب میں پیسے نہ تھے ۔ آپ نے نہر کے پار جانا تھا تو کشتی والے سے پوچھ کر کشتی میں بیٹھ گئے۔ تو جیسے ان کی عادت ہوتی ہے انہوں نے اسی طرح کہہ کر بیٹھا دیا کشتی میں۔
آپ بیٹھ گئی ایک کونے میں۔ دوسرے لوگ بھی بیٹھ گئے۔ تو جو دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان سب نے اپنا اپنا معاوضہ ادا کیا۔ کشتی والے نے حضرت مالک سے بھی پیسے مانگے جس پر حضرت مالک نے جواب دیا کے میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ کشتی والے نے دوسری بات نہ سنی اور ناؤزباللہ حضرت مالک کو تھپڑ مارنا شروع کر دیے۔
اتنا پیٹا کے آپ کشتی میں بے حوش ہو کر گر گئے۔ ادھر ایک بندے کے پاس پینے والا پانی تھا اس نے آپ کے چہرے پر چھڑکاؤ کیا جس سے آپ کو حوش آیا۔ جب وہ حوش میں آ کر بیٹھے تو کشتی والے نے دوبارہ عرض کی کے تمہیں عقل نہیں ہے پیسے تو لے کر آتے۔