بابل ایک تاریخی اور انوکھا شہر ہے۔بابل کے باغات فنِ تعمیر کے بہترین نمونے تھے۔ ان باغات کو دورِ قدیم کے عجائبات میں بھی شامل کیا گیا ہے۔4000 پرانی کتابوں میں اس خوبصورت شہر کا ذکر ملتا ہے۔ 175 قبل از مسیح میں بیبیلونیا کے بادشاہ نے اس کو پائدار بنایا تھا یعنی اس شہر پر حکومت کی تھی۔ جس سے یہ دنیا کا سب سے بڑا اور خوبصورت شہر بن چکا تھا۔ اس کے بعد 699 قبل از مسیح میں بادشاہ بخت نصر نے اس شہر کو ایک مرتبہ پھر تعمیر کروایا ، جو پرانا شہر دریائے فراط کے مشرقی حصے پر واقع تھا بخت نصر نے اس دریا پر ایک پُل بھی تعمیر کروایا۔ 507 قبل از مسیح میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل پر حملہ کیا اور اس پر قابض ہو گیا جس کے بعد اس شہر کے زوال کا آغاز شروع ہوگیا۔ کیونکہ اس وقت تک نئے تجارتی مراکز قاہم ہوگئے تھے جنہوں نے اس شہر کی اہمیت پر اچھا خاصہ اثر ڈالا اور یہ شہر اپنی شہرت کھو بیٹھا اب اس شہر کے صرف کھنڈرات ہی باقی رہ چکے ہیں۔
بابل شہر کا ذکر ہارون اور مارون دو فرشتوں کی کہانی کے ساتھ قرآنِ مجید میں بھی موجود ہے۔ جغرافیائی نگاروں کے مطابق بابل کا یہ خوبصورت شہر اسلام کی آمد سے قبل تباہ و برباد ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ بابل کے متعلق یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ 400 ہجری میں عباسیوں کے دور میں ایک چھوٹا سا گاؤں بابل کے نام سے مشہور تھا۔
یہ وہی شہر ہے جس میں سکندرِ یونانی 32 سال کی عمر میں 323 قبل از مسیح میں دنیا سے رخصت ہوا تھا۔جس کو آج ہم سکندرِ اعظم کے نام سے جانتی ہے ۔ جس نے اپنی بہادری سے 32 سال کی چھوٹی سی عمر میں آدھی دنیا کوفتح کر لیا تھا۔