قاری عبدالحبیب عطاری کے مطابق مکہ میں امیر الحضرت کے ساتھ گئے ہوئے تھے اور وہاں خانہ کعبہ کے پاس نگران شوریٰ کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے کہ ایک نوجوان بہت پرجوش ہو کر مِلا اور بتایا کہ وہ اُن کا بہت بڑا مداح ہے اور اس نے اُن کی باتوں سے اسلام کے بہت سے پہلوؤں کو سمجھا اور اُن پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزاری۔
وہ نوجوان بہت زیادہ عقیدت اور محبت سے ملا تو جب اُس کی ملاقات آلحضرت سے ہوئی تو اُس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں ہو گئے ۔اُس آدمی نے بہت اصرار کیا کہ آپ نے میرے ساتھ میری ٹیکسی میں سفر کرنا ہے وہ مکہ میں ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ لیکن آلحضرت نے منع فرما دیا۔
قاری صاحب کے مطابق مجھے بھی بہت حیرت ہوئی کہ آخر کیوں نہ گئے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ شخص اتنا خوش اور پرجوش تھا۔ کہ اپنے ہوش حواس کھو بیٹھا تھا اور ایسے وقت میں اگر اُس کے ساتھ سفر کیا جاتا تو اُس کا سارا دھیان آلحضرت کی طرف ہوتا۔ اور ڈرائیونگ سے دھیان ہٹ جاتا۔